forest-day-and-pakistan

صنوبر کے نایاب جنگلات

صنوبر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ سست رفتاری سے بڑھنے والا درخت ہے یعنی یہ سو سال میں ایک سے تین انچ تک بڑھتا ہے ۔صنوبر  کو کرہ ارض کی حیاتیاتی تاریخ کے ارتقائی سفر کا ایک قدیم اور زندہ مسافر سمجھا جاتا ہے اسی بناء پر انہیں زندہ  فوسلز بھی کہتے ہیں۔

صنوبر کو دنیا بھر میں نباتات کی طویل العمر اور سست رو قسم مانا جاتا ہے۔ پودوں اور نباتات کی تاریخ میں صنوبر کو ایک قدیم ترین ماحولیاتی نظام کا درجہ حاصل ہے بالعموم سرد اور خشک آب و ہوا والے خطے کے اس پودے سے متعلق ماہرین جنگلات کا اتفاق ہے کہ دنیا بھر میں اس کی 54سے 62کے درمیان اقسام موجود ہیں۔صنوبر شمالی امریکا، شمالی افریقہ، وسط ایشیاء اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے مختلف ممالک میں پایا جاتا ہے دنیا بھر میں اس کا سب سے بڑا جنگل تاجکسان میں واقع ہے جبکہ دوسرا بڑا جنگل پاکستان کے صوبے بلوچستان میں موجود ہے اگر چہ صنوبر کی اقسا م میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے تاہم پاکستان میں اس کی چھ اقسام موجود ہیں۔یوں تو صنوبر بلوچستان کے اضلاع سبی، کوئٹہ، لورالائی،پشین اور قلات میں بھی پایا جاتا ہے لیکن اس کا سب سے وسیع اور گھنا سلسلہ ضلع زیارت میں واقع ہے۔

ماہرین کے مطابق افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ منفی انسانی سرگرمیوں اور غیر دانش مندانہ استعمال کے باعث اس منفرد نوع کے جنگل کو پہنچنے والے نقصانات شدید تر رہے ہیں جس کے سبب اس جنگل کا حیاتیاتی نظام خطرات سے دوچار ہے۔ یہ پچاس سال میں بہ مشکل تین فٹ بڑھتا ہے پھر یہ کہ یہ پیڑ ہر جگہ جڑ بھی نہیں پکڑتا اس کی افزائش کے لیے خاص آب و ہوا اور ماحول درکار ہے۔ صنوبر خشک اور سرد آب و ہوا والے علاقے کا درخت ہے کہ جس کی سطح سمندر سے بلندی اٹھارہ سو تا تین ہزار میٹر تک ہو اور جہاں سالانہ بارش اور برف باری سوا تین سو ملی میٹر سے تجاوز نہ کرے۔ صنوبر کا یہ بے مثال جنگل ہزاروں سال پرانا ہے اور ماہرین نباتات کے مطابق کچھ درخت تو پندرہ ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔بقول محقق ،اگر آپ صنوبر کا 30-35میٹر اونچا پیڑ دیکھیں تو جان لیں کہ آپ کرئہ ارض کے قدیم ترین جانداروں میں سے ایک کو دیکھ رہے ہیں ۔ موسم گرمامیں برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تب بھی صنوبر کا سایہ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کی رفتار کو بڑھنے نہیں دیتا۔ یوں زیرزمین پانی کی بازیافت (ری چارج) کے ساتھ ساتھ پینے، زراعت اور دیگر استعمال کے لیے پانی تقریباً ہر وقت موجود رہتا ہے اور اس کی بڑی مقدار ضائع ہونے سے بھی محفوظ رہتی ہے۔یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

صنوبر کے متعدد طبی فوائد ہیں جن کا حکمت میں استعمال کیا جاتا ہے اور طب مشرق میں اس کے بیش بہا فوائد موجود ہیں۔ صنوبر کے جنگلات زمین کو ہوا کے کٹائو سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ موسم گرما اور سرما کی شدت کو کم کرتے ہیں نیز ہوا میں نمی کے عنصر کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ صنوبر کے درخت سیلابی پانی کے بہائو کو کم کرتے ہیں جس سے قدرتی نظام کے تحت زیر زمین پانی کی ترسیل کو باضابطہ بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ مثلاًطب مشرق کی رو سے صنوبر کی لکڑی کا تیل پرانے زخموں کو ٹھیک کرتا ہے اور چنبل جیسے جلدی مرض کے لیے اکسیر ہے۔ نکسیر روکنے کے لیے صنوبر کے پتوں اور چھال کا سفوف استعمال کیا جاتا ہے جبکہ جسم کے کسی بھی حصے سے بہنے والے خون کو روکنے کے لیے اس کا استعمال مختلف طریقوں سے ہوتا ہے اس کے پتوں اور چھال کے جوشاندے سے کلی کرنے سے دانتوں کا درد ختم ہوتا ہے اور مسوڑے مضبوط ہوتے ہیں اور ان سے خون آنا بند ہو جاتا ہے۔

اگر ہم یہ فوائد جان لیں تو نہ صرف صنوبر کی اہمیت بڑھ جائے گی بلکہ اس سے ادویات کی تیاری کے لیے منظم اور جدید خطوط پر بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ زیارت کے قدیم صنوبری جنگلات پاکستان میں منفرد نظام جنگلات کے حامل ہیں ان کی حفاظت اور ماحولیاتی سیاحت کے فروغ اور عالمی سطح پر انہیں متعارف کروانے کے لیے آئی یو سی این کے صنوبری جنگلات کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت عالمی ورثہ قرار دلوانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے اس سلسلے میں قواعد و ضوابط کے حوالے سے کوششیں شروع ہو چکی ہیں اُمید کی جاتی ہے کہ اگلے برسوں میں اسے یہ درجہ حاصل ہو جائے گا ایسا ہوا تو یہ پاکستان میں منفرد نوعیت کا عالمی ورثہ ہوگا کیونکہ پاکستان میں اب تک قدرتی ماحول کی نسبت کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جسے یہ مقام حاصل ہوا ہو اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نہ صرف زیارت عالمی اہمیت حاصل کرے گا بلکہ ان صنوبری جنگلات کو دیکھنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد بھی یہاں کا رخ کرے گی اس طرح ماحولیاتی سیاحت کو جہاں فروغ حاصل ہوگا مقامی معیشت پر بھی اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور یہ صورتحال منفی انسانی سرگرمیوں سے بھی صنوبر کو بڑی حد تک محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہو گی۔

Saad Ur Rehman Saadi
Saad Ur Rehman Saadi

My name is Saad ur Rehman, and I hold a M.Sc (Hons.) in Agronomy and MA in Journalism. I am currently serving as an Agriculture Officer in the Agriculture Extension Department. I have previously worked with Zarai Tarqiati Bank as an MCO. With my education in agriculture and journalism, I am able to effectively communicate issues that affect farmers' daily lives. In recognition of my community and literary services, I was awarded a gold medal by the government.
.

Articles: 186

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *